Popular Posts

Sunday, 17 March 2013

تو

گوشۂ ذہن میں بے ربط خیالوں کا ہجوم
چشم تنہائی سے چن کر وہی بے باک سے اشک
لمحۂ وصل کے اس احد فراموشی کو
یاد کرتا ہے، سسکتا ہے، بلکتا ہے بہت
آج بھی دشت مسافت کے کٹھن راستوں میں
جلتی بجھتی ہوئی بے نام رفاقت کی شعاع
آرز وقت کی سرخی پہ چھلک پڑتی ہے
پھر سے ملنے کی یہ موہوم طلب اور تڑپ
آج بھی ذہن کے گوشوں میں چمک اٹھتی ہے
آج بھی سوچ کے انگار جزیرے میں تو
آنکھ کے نور میں تو، دل کے سویرے میں تو
اجنبی شام کی دم توڑتی برسات میں تو
ہے لکیروں کی طرح ثبت میرے ہاتھوں میں
میرے ہونٹوں کا تبسم،میرے دن رات میں تو
ہمکلامی کا کوئی واقعہ گزرا بھی نہیں
پھر بھی لگتا ہے،موجود ہے ہر بات میں تو
مجھ سے واقف ہی نہیں تیری طبیعت لیکن
طرز افکار میں تو،شیوۂ گفتار میں تو
تو ہی تو ہے میرے اطراف کی ہر شے میں پنہاں
کبھی اقرار کا حاصل، کبھی انکار میں تو
کبھی سیاہ، کبھی صحرا، کبھی نظروں کا سراب
کبھی شبنم، کبھی نکہت،کبھی رنگ و خوشبو
تو میری نیند، میرا خواب،میری صبح و شام
تو مسرت، تو میرا دکھ،تو میرا سب کچھ ہے
تو میرا کچھ بھی نہیں پھر بھی میرا سب کچھ ہے!

محسن چنگیزی

No comments:

Post a Comment