اب کے یو ں بھی تری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے ، کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے ، کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
سینۂ گل جہاں نکہت بھی گراں ٹھہری تھی
تیر بن کر وہاں سورج کی کرن ٹوٹی ہے
تیر بن کر وہاں سورج کی کرن ٹوٹی ہے
دِل شکسہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر اک شاخِ بدن ٹوٹی ہے
اب کے یوں ہے کہ ہر اک شاخِ بدن ٹوٹی ہے
اتنی بے ربط محبت بھی کہاں تھی اپنی
درمیاں سے کہیں زنجیرِ سخن ٹوٹی ہے
درمیاں سے کہیں زنجیرِ سخن ٹوٹی ہے
اک شعلہ کہ تہِ خیمۂ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
سلسلہ تجھ سے بچھڑنے پہ کہاں ختم ہوا
اک زمانے سے رہ و رسم کہن ٹوٹی ہے
اک زمانے سے رہ و رسم کہن ٹوٹی ہے
مرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ مری سنگینیء فن ٹوٹی ہے
شیشہ شیشہ مری سنگینیء فن ٹوٹی ہے
No comments:
Post a Comment