سر_منزل بھی تو ہم بے اختیار ہی ٹھہرے
بہت سنبھل کے چلے پھر بھی بے اعتبار ٹھہرے
خود اپنے سے اپنی بات کہہ ہنس دینا رو دینا
ہمیں اپنے رازداں ، ہمیں غمگسار ٹھہرے
لٹ گیے دنیا والوں کے ہاتھوں ہم بھی
اور زمانے کی نظر میں ہم بہت ہوشیار ٹھہرے
کبھی جانا بھی تو اجڑے دیاروں میں !
ممکن ہے کہ فصل_ خزاں مشکبار ٹھہرے
میرا اعتماد لوٹا دے تو ، یا کنارہ کش ہو جا
ایسا نہ ہو نخل_امید پہفصل_بے اعتبار ٹھہرے
وہی عام سی میں وہی عام سی خواہشیں میری
میں نے کب چاہا تھا موسم_بہار اشکبار ٹھہرے!
wah ... very nice
ReplyDelete