Popular Posts

Saturday, 9 November 2013

وہی عام سی میں وہی عام سی خواہشیں میری




سر_منزل بھی تو ہم بے اختیار ہی ٹھہرے
بہت سنبھل کے چلے پھر بھی بے اعتبار ٹھہرے 

خود اپنے سے اپنی بات کہہ ہنس دینا رو دینا 
ہمیں اپنے رازداں ، ہمیں غمگسار ٹھہرے

لٹ گیے دنیا والوں کے ہاتھوں ہم بھی 
  اور زمانے کی نظر میں ہم بہت ہوشیار ٹھہرے

کبھی جانا بھی تو اجڑے دیاروں میں !
ممکن ہے کہ فصل_ خزاں مشکبار ٹھہرے

میرا اعتماد لوٹا دے تو ، یا کنارہ کش ہو جا
ایسا نہ ہو نخل_امید پہفصل_بے اعتبار ٹھہرے

وہی عام سی میں وہی عام سی خواہشیں میری
میں نے کب چاہا تھا موسم_بہار اشکبار ٹھہرے!

1 comment: