Popular Posts

Saturday, 23 March 2013

اے عشق مجھے آزاد کرو !!!

 
 
اے عشق مجھے آزاد کرو !!!

کتنی ہی
زنجیریں
دل میں
نوکیلے تپتے آہن سے بھی
کہیں زیادہ چبھتی ہیں
اور گھٹن کی بوجھل دیواریں تو
جیسے پشت اور سینے پر تعمیر ہوئی ہوں
عجب عجب سے پچھتاوے
اور بلا جواز پیشمانی سی
سانسوں اور آنکھوں میں اکثر
پسی ہوئی مرچوں کی سُلگن دور دور تک بھر دیتی ہے
بے چینی کے حلقے روح کو
سختی سے جکڑے رکھتے ہیں
آنسو گلے کو
اندر سے پکڑے رکھتے ہیں
ہجر کی جیلیں
شہر کی جیلوں سے بڑھ چڑھ کر
عمر دبوچ لیا کرتی ہیں
جو کچھ کرنا ہو آخر میں
پہلے سوچ لیا کرتی ہیں

میرے بےخبر ...!!



میرے بےخبر ...!!

میرے روزو شب کے نصیب میں
تیرے بعد درد ہی رہ گئے
میری چاہتوں کی امین جھیل کے پانیوں پہ
کنول کا ایک بھی پھول کب سے کھلا نہیں
کسی راج ہنس نے
چاہتوں کی کہانی کوئی رقم نہ کی
کسی دور دیس سے پنچھیوں کا
محبتوں بھرا قافلہ نہ اتر سکا
کئی ابر لمحے گزر گئے
میری پیاس ، پیاس ہی رہ گئی
کسی اڑتے پنچھی کے گیت میں
تیری واپسی کی نوید ہو
میری آس، آس ہی رہ گئی
تیری قربتوں کی تمازتیں میں نہ چھوسکی
میرے ہاتھ سرد ہی رہ گئے
چلیں ایسی ہجر کی آندھیاں
میری شاخ جان سے
تمھارے لمس کے پھول
سارےہی جھڑ گئے
کئی موسموں سے یہ حال ہے
میری شاخ جان نہ ہری ہوئی
اورپھول چننے کی چاہ میں
میرے ہاتھ میں تیری یاد کے
کچھ برگ زرد ہی رہ گئے ...!

کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو ۔۔۔۔۔۔ بُھلانے لگ جائیں

  •  
     
    کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو ۔۔۔۔۔۔ بُھلانے لگ جائیں
    شائد اِس زخم کو بھرنے میں ۔۔۔۔۔۔۔ زمانے لگ جائیں

    نہیں ایسا بھی ۔۔۔۔۔۔ کہ اِک عمر کی قربت کے نشے
    ایک دو روز کی رنجش سے ۔۔۔۔۔۔ ٹھکانے لگ جائیں

    یہی ناصح ۔۔۔۔۔۔ جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
    تجھ کو دیکھیں ۔۔۔۔۔۔ تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں

    ہم کہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لذتِ آزار کے مارے ہوئے لوگ
    چارہ گر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔ تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں

    ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں ۔۔۔۔۔۔ محبت نہ سہی
    ہم ترے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ کسی اور بہانے لگ جائیں

    ساقیا ۔۔۔۔۔۔ مسجد و مکتب تو نہیں میخانہ
    دیکھنا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں

    قرب اچھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
    یہ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ تجھ کو میرے روگ پرانے لگ جائیں

    اب فراز آؤ چلیں ۔۔۔۔۔۔ اپنے قبیلے کی طرف
    شاعری ترک کریں ۔۔۔۔۔۔ بوجھ اٹھانے لگ جائیں

Tuesday, 19 March 2013

تمہیں کیسے بتا یٔیں ھم



 تمہیں کیسے بتا یٔیں ھم
عذابِ وصل کے ویراں جزیرے پر
ھمارے ریشمی پندار نے
وہ روز و شب کیسے گزارے ھیں

ھر اک لمحہ دلِ سادہ کے دامن میں
کویٔ تازہ اذیت تھی
شبوں میں رتجگوں کی ایک بے وجہ مسا فت تھی
نہ کویٔ خوش گما نی تھی نہ کویٔ بد گما نی تھی
بہت ھی دُور تک پھیلی ھویٔ اک رایٔگا نی تھی
فضا میں تشنگی کے ساحلوں کی ریت اُڑتی تھی
زمیں پر بادلوں کے آنسوؤں کے نقش بنتے تھے
جہاں بھی شام ڈھلتی تھی
وھیں سب روشنی کے استعارے ڈوب جاتے تھے
ھمارے نام کے سارے ستا رے ٹوٹ جاتے تھے
تمہیں کیسے بتا یٔیں ھم

یہ تم جو وصل کی تازہ کہانی کو
کہیں آغا ز کرنے پر
بہت اِ سرار کرتے ھو
ھماری بے نیا زی کا گِلہ ھر با ر کرتے ھو
گلابی خواھشوں کو نیند سے بیدار کرتے ھو

تو اے سا تھی
مِرے اے رازداں ساتھی
تمہارے نرم لہجے کی اداسی
اور تمہا رے جذبۂ و احسا س کی سچا یٔیا ں اپنی جگہ
لیکن
ھمارے اس وجودِ نیم جاں کو راس ھی کب ھے
تب و تابِ محبت کی اسیری میں
فنا ھو کر متاعِ جاوداں ھونا
کسی کا مہرباں ھونا

! تمہیں کیسے بتا یٔیں.......................

Sunday, 17 March 2013

تو

گوشۂ ذہن میں بے ربط خیالوں کا ہجوم
چشم تنہائی سے چن کر وہی بے باک سے اشک
لمحۂ وصل کے اس احد فراموشی کو
یاد کرتا ہے، سسکتا ہے، بلکتا ہے بہت
آج بھی دشت مسافت کے کٹھن راستوں میں
جلتی بجھتی ہوئی بے نام رفاقت کی شعاع
آرز وقت کی سرخی پہ چھلک پڑتی ہے
پھر سے ملنے کی یہ موہوم طلب اور تڑپ
آج بھی ذہن کے گوشوں میں چمک اٹھتی ہے
آج بھی سوچ کے انگار جزیرے میں تو
آنکھ کے نور میں تو، دل کے سویرے میں تو
اجنبی شام کی دم توڑتی برسات میں تو
ہے لکیروں کی طرح ثبت میرے ہاتھوں میں
میرے ہونٹوں کا تبسم،میرے دن رات میں تو
ہمکلامی کا کوئی واقعہ گزرا بھی نہیں
پھر بھی لگتا ہے،موجود ہے ہر بات میں تو
مجھ سے واقف ہی نہیں تیری طبیعت لیکن
طرز افکار میں تو،شیوۂ گفتار میں تو
تو ہی تو ہے میرے اطراف کی ہر شے میں پنہاں
کبھی اقرار کا حاصل، کبھی انکار میں تو
کبھی سیاہ، کبھی صحرا، کبھی نظروں کا سراب
کبھی شبنم، کبھی نکہت،کبھی رنگ و خوشبو
تو میری نیند، میرا خواب،میری صبح و شام
تو مسرت، تو میرا دکھ،تو میرا سب کچھ ہے
تو میرا کچھ بھی نہیں پھر بھی میرا سب کچھ ہے!

محسن چنگیزی

Saturday, 16 March 2013

کبھی تم نے یہ بھی سوچا


کبھی تم نے یہ بھی سوچا
کہ تمہارے دلگرفتہ
تمہیں کتنا چاہتے ہیں !
تمہیں زندگی سے بڑھ کر
جو عزیز ہم نے جانا
سو کوئی سبب تو ہوگا
کبھی تم نے یہ بھی سوچا !

سرِ شام منتظر تھے
کہیں نیلمیں اجالے
کہیں تتلیاں لبوں کی
کہیں پھول جیسے عارض
کہیں قمقموں سی آنکھیں
یہ جو چارہ گر ہمارے
کوئی ساعتِ رفاقت
سرِ شام مانگتے تھے
انہیں کیا خبر کہ ہم نے
تمہیں سونپ دی ہیں راتیں
تمہیں دان کی ہیں آنکھیں

کبھی تم نے یہ بھی سوچا
کہ تمہارے دلگرفتہ
پسِ بام و در اکیلے
کسی شمعِ سوختہ سے
یہ جو کر رہے ہیں باتیں
تمہیں کتنا چاہتے ہیں !

تمہیں روز و شب کے دکھ میں
کبھی بھولنا بھی چاہیں
تو کبھی نہ بھول پائیں
کہ یہ عہدِ زندگی ہے
جسے توڑنا بھی چاہیں
تو کبھی نہ توڑ پائیں !


اعتبار ساجد

Saturday, 9 March 2013

محبّت سر اٹھا کر جی رہی ہے


ہمارے دل بہت زخمی ہیں لیکن....
محبّت  سر اٹھا  کر جی  رہی  ہے !


خلیل الله فاروقی

تمہاری آنکھیں



کتنا مخمور بلاوا ہیں تمہاری آنکھیں
میں اگر راہ سے بھٹکا تو مجرم تم ہو!

خلیل الله فاروقی


Thursday, 7 March 2013

اھل وفا

منزل سے کوسوں دور سہی
پردرد سہی، رنجور سہی
زخموں سے مسافر چور سہی
پر کس سے کہیں اے جان وفا
کچھ ایسے گھاؤ بھی ھوتے ھیں جنہیں زخمی آپ نہیں دھوتے
بن روئے ھوئے آنسو کی طرح سینے میں چھپا کر رکھتے ھیں
اور ساری عمر نہیں روتے
نیندیں بھی مہیا ھوتی، سپنے بھی دور نہیں ھوتے
کیوں پھر بھی جاگتے رھتے ھیں! کیوں ساری رات نہیں سوتے!
اب کس سے کہیں اے جان وفا
یہ اھل وفا
کس آگ میں جلتے رھتے ھیں، کیوں بجھ کر راکھ نہیں ھوتے

شکستگی



وہ ایسے رستے پہ آ نکلی ھے
جہاں ہر موڑ پہ سانپ اور بچھو ھیں
سانپ اسے ڈس چکے
اور
بچھوؤں کو پاؤں تلے مسلتے
اس کے جوتے پھٹ چکے ھیں
 .
.
.
.
.
FDVIRK

سفر کوئی ٹھکانہ چاھتا ھے


تھکن پیروں سے اٹھ کردل سے لپٹی
سفر کوئی ٹھکانہ چاھتا ھے

آس ٹُوٹ جائے گی

اس بے ثبات دُنیا میں
جب ثبات چاھو گے
آس ٹُوٹ جائے گی

Wednesday, 6 March 2013

کہا تھا نا . . . !

  • کہا تھا نا . . . !

    میری خاموشیوں کو تم معنی نہیں‌دینا
    جدائی کی سبھی باتیں‌میری آنکھوں میں پڑھ لینا
    میری اس مسکراہٹ میں اگر محسوس کر پاو
    تو میرے آنسووں‌کی تم نمی محسوس کر لینا
    میری سوچیں میرےالفاظ کا جب روپ لیتی ہیں،
    تمہارا عکس بنتا ہے!

    میری نیندوں میں جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں،
    تمہارا ذکر چلتا ہے!
    تمہاری یاد ماضی کے دریچے کھول دیتی ہے
    تمہاری شبنمی آہٹ یہ مجھ سے بول دیتی ہے

    کہا تھا نا . . . !

    ہمارےدرمیاں یہ فاصلے قسمت میں‌لکھے ہیں
    اور اس قسمت کے لکھےکو
    بدل تم بھی نہیں سکتیں، بدل میں بھی نہیں سکتا!

    مگرمشکل یہ ہے کہ ہجر کے پُریچ رستوں پر
    سنبھل تم بھی
    نہیں سکتیں، سنبھل میں‌بھی نہیں سکتا!

    تو بہتر ہے کہ ہم اک دوسرے کی یاد کے ہمراہ ہو جائیں
    کہ اب کہ اس محبت سے
    نکل تم بھی نہیں سکتیں‌، نکل میں‌بھی نہیں سکتا!

    سنو جاناں!
    تمہاری شبنمی آہٹ میرے اندر دھڑکتی ہے
    مگر جب خامشی سے تم کوئی معانی نہیں لیتیں
    تو یہ دل روٹھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔
    میرے اندر کہیں پر کچھ۔ ۔ ۔ ۔
    اچانک ٹوٹ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا : یوسف حسن


اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زار رہگذر بھی تھا
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا
یہ جسم و جان تیری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا
اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی
گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا
مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد رواں تھا تو معتبر بھی تھا
میں سرخرو تھا خدائی کے روبرو یوسف
کہ اس کی چاہ کا الزام میرے سر بھی تھا

ابھی اک آس باقی ہے


بہت دن سے!
مجھے کچھ اَن کہے الفاظ نے بے چین کررکھا ہے
مجھے سونے نہیں دیتے
مجھے ہنسنے نہیں دیتے
مجھے رونے نہیں دیتے
یوں لگتا ہے!
کہ جیسے سانس سینے میں کہیں ٹھہری ہوئی ہے
یوں لگتا ہے!
کہ جیسے تیز گرمی میں
ذرا سی دیر کو بارش برس کے رک گئی ہے
گھٹن چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے
بہت دن سے!
مری آنکھوں میں سپنوں کی
کوئی ڈولی نہیں اُتری
بہت دن سے!
خیالوں میں‘ دبے پاؤں
کوئی اپنا نہیں آیا
بہت دن سے!
وہ سب جذبے!
جو میری شاعری کے موسموں میں رنگ بھرتے تھے
کہیں سوئے ہوئے ہیں
مرے الفاظ بھی کھوئے ہوئے ہیں
میں اُن کو ڈھونڈنے!
اِس زندگی کے دشت میں نکلا تو ہوں لیکن!
مجھے معلوم ہے‘ جذبے!
اگر اک بار کھو جائیں
تو پھر واپس نہیں ملتے
مجھے معلوم ہے پھر بھی!
ابھی اک آس باقی ہے
میں اب اُس آس کی انگلی پکڑ کر
چل رہا ہوں
بظاہر شبنمی ٹھنڈک مجھے گھیرے ہوئے ہے
مگر میں جل رہا ہوں
میں اب تک چل رہا ہوں

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو (محسن نقوی)

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو

گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو

کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو

اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو

یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو

بے وفا : محسن نقوی


اب کے اُس کی آنکھوں میں بے سبب اُداسی تھی
اب کے اُس کے چہرے پر دُکھ تھا بدحواسی تھی
اب کے یُوں مِلا مُجھ سے یُوں غزل سُنی جیسے
میں نا شناسا ہوں وہ بھی اجنبی جیسے
زرد خال و خد اُس کے سوگوار دامن تھا
اب کے اُس کے لہجے میں کتنا کھردرا پن تھا
وہ کہ عمر بھر جس نے شہر بھر کے لوگوں سے
مجھ کو ہم سُخن جانا ازل سے آشنا لکھا
خُود سے مہربان لکھا مجھ کو دِلربا لکھا
اب کے سادہ کاغذ پہ سرخ روشنائی سے
اس نے تلخ لہجے میں میرے نام سے پہلے
صرف بے وفا لکھا

Light Of Allah

Hasan al-Basri Was Once Asked: 'Why Are Those People Who Pray At Night So Beautiful?' He Responded: 'Because Allah Beautifies Them With His Light While Others Are Sleeping In The Dark.'

Sunday, 3 March 2013

خواب


ﭼﺒﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮨﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻧﭻ ﮐﮯ ﭨﮑﺮﮮ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ
ﺗﻮﮌﺍ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ
ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﭧ ﺟﺎﻭﮞ ﯾﮧ ﮨﻤﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﯽ
ﮐﺲ ﺭﺍﮦ ﭘﮧ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ
ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ
ﺍﮎ ﭘﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﻼ ﮈﺍﻻ
ﺳﺒﮭﯽ ﮐﭽﮫ
ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ
ﺟﮭﻨﺠﻮﮌﺍ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ
ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ
ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ
ﺣﯿﺮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺭﯾﺎﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﮌﺍ
ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ...............!!

ہم اسیران وفا، مہرو علی



کس قدر سخت ہے اے جان جہاں ہجر کی رات
کوئی آواز،نہ آہٹ، نہ ہی جینے کا سراغ
مہر بہ لب ہے خموشی بھی کئی برسوں سے
چاند تارے ہیں فلک پر نہ زمین پر ہے چراغ
روشنی بھی میری تقدیر سے خائف ہو کر
میرے آنگن سے بہت  دور رہا کرتی ہے
حبس اتنا ہے کہ منہ زور ہوا کی سانسیں
میری دہلیز کو چھو لیں تو اکھڑ سکتی ہیں
اور ایسے میں ستم دیکھ کہ اے جان جہاں
ذہن کے بند کواڑوں پہ  ہے دستک دیتا
زینہ شب سے اترتا تیری یادوں کا ہجوم
خشک پتوں سا بکھرتا تیرے وعدوں کا ہجوم
کوچہ جاں میں یونہی رات گئے پھیلتی ہے
چند بکھرے ہوئے،ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کسک
جیسے سوکھے ہوئے بےجان گلابوں کی مہک
سوچ . . ایسے میں در_یار سے ٹھکرائے ہوئے
اپنی سانسوں سے بھی
دھڑکن سے بھی اکتائے ہوئے'
ہم اسیران وفا، زہر_جفا کھائے ہوئے
کس طرح جینے کا سامان کیا کرتے ہیں؟
اور ہر روز___ میری جان کیا کرتے ہیں___!!

تقدیر

تدبیر بھی تقدیر کے آگے سرنگوں ہوتی ہے۔۔۔۔ مَشّیتِ ایزدی کے سامنے لبیک کہنا ہی بندگی کا اصل مفہوم ہے۔۔۔۔ ہمارے تمہارے چاہنے، سوچنے یا کرنے سے ہی اگر تمام مسئلے حل ہوسکتے تو پھر خدا کہاں ہے ؟ ہم منزل کی سمت قدم بڑھا کر سفر تو شروع کر سکتے ہیں لیکن منزل پا لینا ضروری نہیں ٹھہرتا۔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا ہی منزل کا مفہوم ہے۔

(محمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔ صفحہ نمبر563 )

عشق


ﻋﺸﻖ ﻓﻘﯿﺮ ﺣﺮﻡ ،ﻋﺸﻖ ﺍﻣﯿﺮ ﺟﻨﻮﺩ

ﻋﺸﻖ ﮨﮯ ﺍﺑﻦ ﺳﺒﯿﻞ ،ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﻘﺎﻡ (:....

خستہ حال افسردہ سے لوگ

یہ خستہ حال افسردہ سے لوگ ہی خاور.
بلند حوصلے اعلی' خیال رکھتے ہیں

محبت اس طرح بھیجو



محبت اس طرح بھیجو
کہ جیسے پھول پرتتلی اترتی ہے
ہوا میں ڈولتی پر تولتی تتلی
لرزتی کپکپاتی پنکھڑیوں کو پیار کرتی ہے
تو ہر پتی نکھرتی ہے

محبت اس طرح بھیجو
کہ جیسے چار سو خوشبو بکھرتی ہے

محبت اس طرح بھیجو
کہ جیسے خواب آتا ہے
جو آتا ہے تو دروازے پہ آہٹ تک نہیں ہوتی
بہت سرشار لمحے کی مدھر چپ میں
کسی ہلکورے لیتی آنکھ کی خاطر
کسی بیتاب سے ملنے کوئ بے تاب آتا ہے

محبت اس طرح بھیجو
کہ جیسے جھیل میں مہتاب آتا ہے !



سو ڈھلتا رہا، جلتا رہا، چلتا رہا میں . . !




سورج کے افق ہوتے ہیں ، منزل نہیں ہوتی
سو ڈھلتا رہا، جلتا رہا، چلتا رہا میں . . !
اک عشق قبیلہ میری مٹی میں چھپا تھا
ایک شخص تھا لیکن کوئی ایک شخص نہ تھا میں!

سعود عثمانی

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے - حفیظ جالندھری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

تنہائی کا زنگ

دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ

"ﺟﻨّﺖ ﮐﮯ ﭘﺘﮯ"

ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ
ﺳﭽﻮﯾﺸﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﮨﻤﯿﮟ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ
ﺳﭽﻮﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﺎﻻﺕ
ﮨﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﭼﮭﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ
ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺑﮭﻠﮯ
ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺨﺖ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﮯ۔
ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ: ﻧﻤﺮﮦ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻭﻝ "ﺟﻨّﺖ ﮐﮯ
ﭘﺘﮯ" ﺳﮯ

الله

بہت سے لوگ اپنے آپکو الله کے نزدیک سمجھتے ہیں ، حالانکہ وہ انتہائی حد تک الله سے دور ہوتے ہیں - وہ خدا کی باتیں کرتے ہیں مگر انکا پورا وجود گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ ابھی انہوں نے الله کو پہچانا ہیں نہیں -

وہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر انکے منہ میں خدائی مٹھاس کی شکر نہیں گھلتی ، وہ خدا کو پانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر خدا کے چمنستان کی کوئی خوشبو انکے مشام کو معطر نہیں کرتی

مولانا وحید الدین خان

Saturday, 2 March 2013

دعا



ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﻧﮯ
ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ !ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ
ﻭﺍﻻ ، ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ !ﻣﯿﺮﯼ ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ،ﮐﻮﺗﺎﮨﯿﺎﮞ ، ﮔﻨﺎﮦ ﺍﻭﺭ
ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯿﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﮩﺖ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ
ﻟﯿﮑﻦ! ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﺗﯿﺮﯼ ، ﻣﻌﺎﻓﯽ ،
ﺑﺨﺸﺶ ، ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﮯ۔
ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﺕ
ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﺍﻭﺭﺑﺨﺸﺶ ﮐﺎ
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ! ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﻤﻞ
ﻧﮩﯿﮟ ! ﺟﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺑﺲ !
ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﯽ ﺁﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮨﮯ ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ
ﺳﺐ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﺨﺶ ﺩﮮ ۔
ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ! ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺑﺨﺸﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ
ﺟﺎﺅﻧﮕﺎ
ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﮞ ،ﺗﯿﺮﮮ
ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮩﻨﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮑﻮ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﮑﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ۔
ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ! ﺗﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ،ﻣﻌﺎﻑ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ
ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﮮ ۔
ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ! ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺐ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ
ﻭﮐﺮﻡ ﺍﻭﺭﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻭﻣﻨﻈﻮﺭ
ﻓﺮﻣﺎ ۔
ﺁﻣﯿﻦ ﺛﻢ ﺁﻣﯿﻦ

عذاب کا لمحہ


عذاب کا لمحہ، وہ لمحہ ہے جب کرنیں اپنے سورج کو چاٹنے لگ جائیں... جب شاخیں اپنے درخت کو کھا جائیں.. جب اعضاء اپنے وجود سے کٹ جانا چاہیں..جب اجزاء اپنے کل سے منحرف ہوں.. جب اپنی صورت اپنی صورت نہ رہے.. جب نہ ہونا اپنے ہونے سے بہتر ہو..جب آدھا راستہ طے کرنے کے بعد مسافر سوچنے لگ جائیں کہ یہ سفر بےکار ہے .......!!!

خواب

بعض دفعہ انسان اپنے خواب کسی شے میں ڈال کر ان کو سیل بند کر دیتا ہے۔ موم کی ایسی سیل جو کوئی کھول نہ سکے۔ اس نے بھی اپنے خواب مہر بند کر دیے تھے۔

(اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "جنّت کے پتے" سے)

Friday, 1 March 2013

کبھی جو عہد وفا میری جان



کبھی جو عہد وفا میری جان تیرے میرے درمیان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کے اس سے پہلے زمین پہ یہ آسمان ٹوٹے

تیری جدائی میں حوصلوں کی شکست دل پہ عذاب ٹھہری
کے جیسے منه زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے

اسے یقین تھا کے اس کو مرنا ہے پھر بھی خواہش تھی اس کے دل میں
کے تیز چلنے سے پیشتر دست دشمناں میں کمان ٹوٹے

سب دلیلیں سنبھال کر بھی میرے وکیلو یہ سوچ لینا
وہیں پہ میری شکست ہوگی جہاں بھی میرا بیان ٹوٹے

فنا کے تیلے پہ خیمہ جان ہوا کے جھونکے سے یوں گرا ہے
کے جیسے بدقستمی سے بزدل شکاریوں کی مچان ٹوٹے

وہ سنگ ہے تو گِرے بھی دل پر وہ آئینہ ہے تو چُبھ ہی جائے گا
کہیں تو میرا یقین بکھرے کہیں تو میرا گمان ٹوٹے

اجاڑ بن کی اُداس رُت میں غزل تو محسن نے چھیڑ دی ہے
کسے خبر ہے کے کس کے معصوم دل پہ اب کے یہ تان ٹوٹے ؟

کبھی جو عہد وفا میری جان تیرے میرے درمیان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کے اس سے پہلے زمین پہ یہ آسمان ٹوٹے

تیری جدائی میں حوصلوں کی شکست دل پہ عذاب ٹھہری
کے جیسے منه زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے

موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی


اب کے یو ں بھی تری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے ، کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
سینۂ گل جہاں نکہت بھی گراں ٹھہری تھی
تیر بن کر وہاں سورج کی کرن ٹوٹی ہے
دِل شکسہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر اک شاخِ بدن ٹوٹی ہے
اتنی بے ربط محبت بھی کہاں تھی اپنی
درمیاں سے کہیں زنجیرِ سخن ٹوٹی ہے
اک شعلہ کہ تہِ خیمۂ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
سلسلہ تجھ سے بچھڑنے پہ کہاں ختم ہوا
اک زمانے سے رہ و رسم کہن ٹوٹی ہے
مرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ مری سنگینیء فن ٹوٹی ہے

اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں


اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر تیرے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں

وہ ریزہ ریزہ میرے بدن میں اُتَر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھ کو پی رہا ہوں

تیری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں تیرا دوست بھی رہا ہوں

کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کہ جی رہا ہوں

کہاں ملے گی مثال میری ستمگری کی ؟
کے میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

نا پوچھ مجھ سے کے شہر والوں کا حل کیا تھا
کے میں تو خود اپنے گھر میں دو گھڑی رہا ہوں

ملا تو بیتے دنوں کا سچ اسکی آنکھ میں تھا
وہ آشْنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں

بھلا دے مجھ کو کے بے وفائی بجا ہے لیکن
گنوا نا مجھ کو کے میں تیری زندگی رہا ہوں

وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کے میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں