Popular Posts
-
ﺑﺮﻑ ﻭ ﺑﺎﺭﺍﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﺴﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺴﮑﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﻭ، ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻤﺒﻞ ﺍُﺳﮯ ﺍ...
-
تو کوزہ گر - عشق ہے اور میں ہوں گل - عشق .. اب جیسا تجھے اچھا لگے ویسا بنا تو ..!!
-
سر_منزل بھی تو ہم بے اختیار ہی ٹھہرے بہت سنبھل کے چلے پھر بھی بے اعتبار ٹھہرے خود اپنے سے اپنی بات کہہ ہنس دینا رو دینا ہم...
-
ﺍﺩﺍﺱ ﻟﻤﺤﻮ!!!!! ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮑﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﮍﯼ ﮨﮯ۔۔؟ ﮨﮯ ﺭﯾﺖ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﺧﺎﺭ ﺩﻝ ...
-
ﺧﻮﺍﺏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﺳﺎ ﺑﺪﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﯽ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﺴﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﻮﺭ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ...
-
تم سے ہم کیا کہیں تم کو معلوم کیا ہم نے کاٹی ہے کیسے شب زندگی ہم نے کیسے اٹھایا ہے بار_وفا
-
کبھی بادل وار برس سائیں میرا سینہ گیا ترس سائیں میں توبہ تائب دیوانہ آباد کروں کیا ویرانہ میری بس سائیں ، میری بس سائیں کبھی ب...
-
ﺳﺎﺋﯿﺎﮞ ﺳﻮﮨﻨﯿﺎ ! ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺭﺑﺎﺭ - ﮔﻠﺒﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﺒﺰ ﺗﺮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺳﯿﺪﺍ ! ﻟﻮﮒ ﮈﺭﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ! ﻟﻮﮒ ﮈﺭﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ -...
Friday, 20 December 2013
Tuesday, 10 December 2013
کھوئی ہوئی چیزیں واپس لینی ہیں.........
کھوئی ہوئی چیزوں کو ڈھونڈنا کبھی آسان نہیں ہوتا، کہتے ہیں جو چیز جہاں پہ کھوئے، دوبارہ وہیں سے مل جاتی ہے ....
اگر یہ سچ ہے تو وقت سے کہو کہ اپنا پہیہ پیچھے گھمائے. مجھے بھی اپنی کھوئی ہوئی چیزیں واپس لینی ہیں...................................................
اگر یہ سچ ہے تو وقت سے کہو کہ اپنا پہیہ پیچھے گھمائے. مجھے بھی اپنی کھوئی ہوئی چیزیں واپس لینی ہیں...................................................
Tuesday, 3 December 2013
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں تھی
کہ جو زندگی کی رگوں سے
جواں خون کی آخری بوند تک کھینچ لے
جسم کا کھیت بنجر کرے
اِس لیے جب سے تو اُس سفر پر گیا
میں نے آئینہ دیکھا نہیں
ساری دنیا سے اور آسماں تک سے پردہ کِیا
میں نے سردی میں دھوپ اور گرمی میں
سائے کی پروا نہ کی
زندگی کو نہ سمجھا کبھی زندگی
عادتاً سانس لی
بھوک تو مر گئی تھی جدائی کی پہلی ہی ساعت میں
لیکن ابھی پیاس باقی ہے
اور ایسی ظالم کہ میرے بدن پر ببول اُگ رہے ہیں
زباں پر بھی کانٹے پڑے ہیں
مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں ہے
کہ جو موت اور زندگی میں کوئی فرق رہنے نہ دے
پھر بھی یہ جان لے
گر مجھے چشمہء آب ِ حیواں بھی مل جائے
اک بوند
تیرے بنا مجھ پہ جائز نہیں
مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں تھی
کہ جو زندگی کی رگوں سے
جواں خون کی آخری بوند تک کھینچ لے
جسم کا کھیت بنجر کرے
اِس لیے جب سے تو اُس سفر پر گیا
میں نے آئینہ دیکھا نہیں
ساری دنیا سے اور آسماں تک سے پردہ کِیا
میں نے سردی میں دھوپ اور گرمی میں
سائے کی پروا نہ کی
زندگی کو نہ سمجھا کبھی زندگی
عادتاً سانس لی
بھوک تو مر گئی تھی جدائی کی پہلی ہی ساعت میں
لیکن ابھی پیاس باقی ہے
اور ایسی ظالم کہ میرے بدن پر ببول اُگ رہے ہیں
زباں پر بھی کانٹے پڑے ہیں
مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں ہے
کہ جو موت اور زندگی میں کوئی فرق رہنے نہ دے
پھر بھی یہ جان لے
گر مجھے چشمہء آب ِ حیواں بھی مل جائے
اک بوند
تیرے بنا مجھ پہ جائز نہیں
شام جھانکتی ہے
عجیب عالم ہے
زندگی
میری بھیگتی پتلیوں میں جیسے دھڑک رہی ہے
تمہاری یادوں کے سائے سائے
دھندلکا، پیڑوں کی چوٹیوں پر اتر رہا ہے
شفق ۔۔ خموشی سے پھیل کر دور تک بکھرتے
حسین منظر کے کینوس پر
ہزار رنگوں پہ
اک گلابی چھڑک رہی ہے
میں تم سے کتنی ہی دُور ہوں
پر تمہاری قربت کی
تیز حدت سے جل رہی ہوں
میں سارے منظر سے بھی الگ ہوں
مگر شفق سے ۔۔ وجود گلنار ہو رہا ہے
کھلی ہوئی کھڑکیوں سے
اک شام جھانکتی ہے
زندگی
میری بھیگتی پتلیوں میں جیسے دھڑک رہی ہے
تمہاری یادوں کے سائے سائے
دھندلکا، پیڑوں کی چوٹیوں پر اتر رہا ہے
شفق ۔۔ خموشی سے پھیل کر دور تک بکھرتے
حسین منظر کے کینوس پر
ہزار رنگوں پہ
اک گلابی چھڑک رہی ہے
میں تم سے کتنی ہی دُور ہوں
پر تمہاری قربت کی
تیز حدت سے جل رہی ہوں
میں سارے منظر سے بھی الگ ہوں
مگر شفق سے ۔۔ وجود گلنار ہو رہا ہے
کھلی ہوئی کھڑکیوں سے
اک شام جھانکتی ہے
Sunday, 1 December 2013
دربار_دل
Kisi Ne Mere Pore Wujood Ko Jaise
Muhabbat Ki Meekhoun Say Thonk
Diya Tha....Aur Main.....Main Zindagi
Mein Pehli Baar Darbaar e Dil Mein
Daakhil Ho Rahi Thi....Aur Wahan Dil
Apne Takht Par Bade Tanaffur Aur
Tamkinat Kay Saath Baraajmaan
Tha....Ajeeb Ghuroor Tha Uske Wujood
Mein....Aur Uske Darbaar Mein Har
Koi Guthnoun Kay Bal Gira Howa
Tha.... Sirf Main Thi Jo Apne Pairon
Par Chal Kar Aayi Thi....Shayid Kabhi
Wo Sab Bhi Apne Pairon Par Chalte
Howe Hi Wahan Aaye Honge....Sirf
Main Thi Jo Apne Pairon Par Wahan
Khadi Thi....Shayid Kabhi Wo Sab Bhi
Wahan Apne Pairon Par Khadi
Honge...Aur Sirf Main Thi Jo Takht Par
Bethe Dil Kay Saamne Khadi Usey
Daikh Rahi Thi....Aur Dil....Uske
Hontoun Par Ajab Muskurahat
Thi....Shayid Wahan Aane Waala Har
Koi Pehle Yunhi Daikhta Hoga...Tanii
Gardan ....Uthi Thouri ....Seedhe
Kandhe....Takht Kay Paar Haathoun Pe
Phaile Baazu....Wo Apne Darbaar Mein
Baadshah Tha....Wo Darbaar e Dil Tha
Aur Main....Main....Main Aakhir Wahan
Kyu Aayi Thi ....Ya Laayi Gayi Thi....
Naam?.....
Meher Sami.....
Omar?....
20 Saal....
Jins?....
Aurat.....
Muhabbat?....
Andhi.....
Maine Chounk Kar Daikha....Wo Kya
Had Jaari Kar Raha Tha Mujhpar???.....
Muhabbat Andhi....Andhi
Muhabbat....Tou Main Andhi
Muhabbat Ka Shikaar Hoi Thi....Kisi Ne
Qehqeha Lagaaya.... Meher
Sami....Rare Species....Blind Love....Is
Darbaar Ka Hukmaraan Mujhe Daikhte
Howe Pasandeedgi Saay Keh Raha
Tha....Pure And Blind Love....Main Isey
Rakhna Chaahonga...Usne Taali
Bajayi....Kisi Ne Mere Wujood Ko
Zzanjeeroun Say Jakrda....Aur Phir
Main Oundhe Moun Farsh Par Giri Padi.......''
Writer : Umera Ahmed.
Novel : Darbaar e Dil. —
Muhabbat Ki Meekhoun Say Thonk
Diya Tha....Aur Main.....Main Zindagi
Mein Pehli Baar Darbaar e Dil Mein
Daakhil Ho Rahi Thi....Aur Wahan Dil
Apne Takht Par Bade Tanaffur Aur
Tamkinat Kay Saath Baraajmaan
Tha....Ajeeb Ghuroor Tha Uske Wujood
Mein....Aur Uske Darbaar Mein Har
Koi Guthnoun Kay Bal Gira Howa
Tha.... Sirf Main Thi Jo Apne Pairon
Par Chal Kar Aayi Thi....Shayid Kabhi
Wo Sab Bhi Apne Pairon Par Chalte
Howe Hi Wahan Aaye Honge....Sirf
Main Thi Jo Apne Pairon Par Wahan
Khadi Thi....Shayid Kabhi Wo Sab Bhi
Wahan Apne Pairon Par Khadi
Honge...Aur Sirf Main Thi Jo Takht Par
Bethe Dil Kay Saamne Khadi Usey
Daikh Rahi Thi....Aur Dil....Uske
Hontoun Par Ajab Muskurahat
Thi....Shayid Wahan Aane Waala Har
Koi Pehle Yunhi Daikhta Hoga...Tanii
Gardan ....Uthi Thouri ....Seedhe
Kandhe....Takht Kay Paar Haathoun Pe
Phaile Baazu....Wo Apne Darbaar Mein
Baadshah Tha....Wo Darbaar e Dil Tha
Aur Main....Main....Main Aakhir Wahan
Kyu Aayi Thi ....Ya Laayi Gayi Thi....
Naam?.....
Meher Sami.....
Omar?....
20 Saal....
Jins?....
Aurat.....
Muhabbat?....
Andhi.....
Maine Chounk Kar Daikha....Wo Kya
Had Jaari Kar Raha Tha Mujhpar???.....
Muhabbat Andhi....Andhi
Muhabbat....Tou Main Andhi
Muhabbat Ka Shikaar Hoi Thi....Kisi Ne
Qehqeha Lagaaya.... Meher
Sami....Rare Species....Blind Love....Is
Darbaar Ka Hukmaraan Mujhe Daikhte
Howe Pasandeedgi Saay Keh Raha
Tha....Pure And Blind Love....Main Isey
Rakhna Chaahonga...Usne Taali
Bajayi....Kisi Ne Mere Wujood Ko
Zzanjeeroun Say Jakrda....Aur Phir
Main Oundhe Moun Farsh Par Giri Padi.......''
Writer : Umera Ahmed.
Novel : Darbaar e Dil. —
Monday, 18 November 2013
پتھر
تم نے یہ پتھر آئینے پر نہیں
میرے دل پر مارا ہے
آنکھیں___ چکنا چور ہو چکی ہیں
میری سانسوں سے خوں رِستہ ہے
رَگوں میں آگ دوڑتی ہے
کِرچیاں چیخ رہی ہیں
پھر بھی ہر ٹکڑے میں
عکس تمہارا ہے
تم___ توڑ دو سب
تم کو کچھ نہیں کہنا
میری تپِش____میری ہے
میری چُبھن____میری ہے
تم __تم ایسا کرو ________ پتھر مارو ______!!!!!!
"کتھارس"
"کتھارس"
کسی رت کا کوئی دکھ ہو
کوئی سکھ ہو
ہمیں محسوس ہوتا ہے
یہی "احساس" ہونے کی علامت ہے
ہماری زندگانی کی علامت ہے
تمہیں حیران ہونے کی ضرورت کیا ؟
چلے جاؤ
تمہیں کیا واسطہ اس سے ؟
کہ ہم تنہائیوں میں کس طرح رہ کر
گزر اوقات کرتے ہیں
تمہیں ہو کیوں غرض اس سے ؟
کہ جیتے ہیں کہ مرتے ہیں
چلے جاؤ
ہمارے زخم بھرنے کے نہیں ہیں ان دلاسوں سے
کوئی دیکھے تو کیوں دیکھے
کہ کیسے صبر آتا ہے
ہمیں تاریک راتوں میں
کوئی دیکھے تو کیوں دیکھے
کہ کیسے محو رہتے ہیں
ہم اپنے ساتھ ، باتوں میں
چلے جاؤ
ہمیں محسوس کرنے دو
ہمارے زخم بھرنے دو
میرے ہمراز آؤ تو
بُجھا دو روشنیاں ساری
غبار اس دل کا نکلے گا
بہت تاریک کمرے میں
مجھے اب ہچکياں لیتے
کوئی بھی دیکھ پائے کیوں ؟
میرے انجام پہ آخر
"وہ چہرہ" مسکرائے کیوں ؟
چلے جاؤ
ہمیں تو اس سمے گھر کے
درودیوار بھی اچھے نہیں لگتے
چلے جاؤ.....!!
چلے جاؤ.....!!
Saturday, 9 November 2013
ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺭﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ...
ﺷﮑﺴﺘﮧ ﭘﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﺩﯾﮑﮭﻮ!
ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺭﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﺮﮮ ﻣﻔﻠﻮﺝ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﯿﺎﺕِ ﻧﻮ ﮐﺎ ﺍﺏ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻣﺖ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﻨﺎ،
ﻣﺮﯼ ﺑﮯﻧﻮﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻮﯾﺪِ ﺧﻮﺍﺏِ ﺍﻟﻔﺖ
ﻣﺖ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ،
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﮧ ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ...
ﻣﺮﮮ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻠﻨﮯ،
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﮨﮯ! ..
ﻣﺮﮮ ﭨﻮﭨﮯ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ
ﺫﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ !!
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ،
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ ﻣﺮﮮ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﭘﻠﮑﯿﮟ
ﺑﭽﮭﺎﺅ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ
ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺿﺪ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﺠﮭﺘﯽ ﺭﻭﺡ ﭘﺮ ﺗﻢ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ....
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺿﺪ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﺎﺭ ﻣﺎﻧﯽ،
ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﮎ ﺩﻡ ﺗﻮﮌﺗﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﮯ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ
ﺳﮯ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺎ،
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﮟ ﺳﻮﻧﭙﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
ﻣﮕﺮ ﺟﻮ ﺍﺏ ﮐﮯ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﮯ،
ﻣﺮﮮ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﮍ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺟﮍ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ،
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻣﮑﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ، ﺍﺏ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ
ﺭﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯽ
اداس بے کل خزاں کا موسم ہمارے دل میں اتر چکا ہے
اداس لمحو!
اجاڑراتو!
میرے تخیل سے دور بھاگو!
یہ لوگ جو میرے رہبر ہیں!
یہ میری سوچوں سے بےخبر ہیں!
یہ مجھ سے کہتے ہیں
تتلیوں پر
جگنوؤں پر
کتاب لکھوں!
کہ چاہتوں کا نصاب لکھوں!
انھیں میں کیسے بتاؤں کہ اب!
بہار موسم گزر چکا ہے!
اداس بے کل خزاں کا موسم
ہمارے دل میں اتر چکا ہے
ہمارے قہقوں کا
خوشبوؤں کا
وہ دورکب کا گزر چکا ہے!
اب تو جینا وبال اپنا
نہ روپ و رنگ و جمال اپنا
تھا جس کو تھوڑا خیال اپنا
وہ شخص کب کا بچھڑ چکا ہے!
وہی عام سی میں وہی عام سی خواہشیں میری
سر_منزل بھی تو ہم بے اختیار ہی ٹھہرے
بہت سنبھل کے چلے پھر بھی بے اعتبار ٹھہرے
خود اپنے سے اپنی بات کہہ ہنس دینا رو دینا
ہمیں اپنے رازداں ، ہمیں غمگسار ٹھہرے
لٹ گیے دنیا والوں کے ہاتھوں ہم بھی
اور زمانے کی نظر میں ہم بہت ہوشیار ٹھہرے
کبھی جانا بھی تو اجڑے دیاروں میں !
ممکن ہے کہ فصل_ خزاں مشکبار ٹھہرے
میرا اعتماد لوٹا دے تو ، یا کنارہ کش ہو جا
ایسا نہ ہو نخل_امید پہفصل_بے اعتبار ٹھہرے
وہی عام سی میں وہی عام سی خواہشیں میری
میں نے کب چاہا تھا موسم_بہار اشکبار ٹھہرے!
Saturday, 2 November 2013
گھر
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ !
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﮯ،ﻧﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﺎ ﮔﺰﺭﺷﺎﯾﺪ
ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺯﻥ ﺳﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ
ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﮯ
ﺣﺮﻑ
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﮐﮩﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﺩﮬﻮﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ، ﺗﺸﻨﮧ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺧﺎﻣﺸﯽ ﮨﮯِ
ﮨﻮ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ
ﻋﺠﺐ ﺍﮎ ﻧﻮﺣﮧ ﺧﻮﺍﻧﯽ ﮨﮯ
ﯾﻮﺳﻒ ﺧﺎﻟﺪ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﮯ،ﻧﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﺎ ﮔﺰﺭﺷﺎﯾﺪ
ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺯﻥ ﺳﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ
ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﮯ
ﺣﺮﻑ
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﮐﮩﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﺩﮬﻮﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ، ﺗﺸﻨﮧ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ
ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺧﺎﻣﺸﯽ ﮨﮯِ
ﮨﻮ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ
ﻋﺠﺐ ﺍﮎ ﻧﻮﺣﮧ ﺧﻮﺍﻧﯽ ﮨﮯ
ﯾﻮﺳﻒ ﺧﺎﻟﺪ
Wednesday, 23 October 2013
Tuesday, 22 October 2013
میں سوچتا ہوں
کہیں سنا ہے
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے
میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں
میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں کئی زمانے بتا چکا ہوں۔
کہیں سنا ہے
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے
میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں
میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں کئی زمانے بتا چکا ہوں۔
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے
میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں
میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں کئی زمانے بتا چکا ہوں۔
Sunday, 20 October 2013
Tuesday, 15 October 2013
رضیت باللہ
کچھ لوگوں سے اللہ انکی انا مانگتا ہے، کچھ سے اللہ انکا مال مانگتا ہے،
کچھ سے نفس، کچھ سے جان، کچھ سے جاہ، کچھ سے عزت، کچھ سے صحت،
کچھ سے دنیا، کچھ سے رغبت، اور کچھ سے اللہ انکا محبوب مانگتا ہے، کچھ سے انکا دل مانگ لیتا ہے۔۔۔۔
انکی محبت مانگ لیتا ہے۔ اللہ کے بندوں کی سب آزمائشیں اللہ کے قریب کرنے کے لیئے ہوتیں ہیں، جو انا، مال، نفس، جاہ، جلال، عزت، رتبہ، رغبت، محبوب اللہ نے دیا اسی اللہ نے دل بھی دیا تو جو اللہ کا ہو اللہ اسے مانگنے کا حق رکھتا ہے،
تو امانت مانگنے پر ہر گلے شکوے سے بے نیاز امانت صرف وہی لوٹاتے ہیں جو اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔
اللہ کے معاملوں میں بدلے کی چاہ تو فقط تاجر رکھتے ہیں، محبت والے تو فقط اللہ کی چاہ پر الحمدللہ لبیک کہتے حاضر ہوتے ہیں ۔۔
جسکو اللہ کی چاہ کی چاہت لگ جاۓ اسے اسکی اپنی ہر چاہت سے بےنیاز کر ہی دیا جاتا ہے۔۔!
مگر یہ بے نیازی بہت بے بسی، بہت عاجزی بہت تلاطم، بہت صبر کے بعد مَن کے سمندر کا حصہ بنتی ہے۔
قربانی ہی تو قرب عطا کرتی ہے، ظرف عطا ہے اور سب کو بقدرِ ظرف آزمایا جاتا ہے اور سبکو بقدرِ ظرف عطا کیا جاتا ہے۔۔۔۔
قربانی کی توفیق بھی عطا ہے۔ اللہ کے کارخانہء قدرت میں سب عطا ہے۔۔۔ ہر آزمائش، ہجر وصل، سزا جزا، سب عطاہے الحمد للہ!
اللہ پاک ہمیں اپنی چاہ میں راضی برضا رہنے کی توفیق عطا فرما دے، اللہ ہمیں معاف کر دے، اللہ ہم سے دو جہاں میں راضی ہو جاۓ۔۔۔
آمین یا رَبُّ العَالَمِیـــن!
کچھ سے نفس، کچھ سے جان، کچھ سے جاہ، کچھ سے عزت، کچھ سے صحت،
کچھ سے دنیا، کچھ سے رغبت، اور کچھ سے اللہ انکا محبوب مانگتا ہے، کچھ سے انکا دل مانگ لیتا ہے۔۔۔۔
انکی محبت مانگ لیتا ہے۔ اللہ کے بندوں کی سب آزمائشیں اللہ کے قریب کرنے کے لیئے ہوتیں ہیں، جو انا، مال، نفس، جاہ، جلال، عزت، رتبہ، رغبت، محبوب اللہ نے دیا اسی اللہ نے دل بھی دیا تو جو اللہ کا ہو اللہ اسے مانگنے کا حق رکھتا ہے،
تو امانت مانگنے پر ہر گلے شکوے سے بے نیاز امانت صرف وہی لوٹاتے ہیں جو اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔
اللہ کے معاملوں میں بدلے کی چاہ تو فقط تاجر رکھتے ہیں، محبت والے تو فقط اللہ کی چاہ پر الحمدللہ لبیک کہتے حاضر ہوتے ہیں ۔۔
جسکو اللہ کی چاہ کی چاہت لگ جاۓ اسے اسکی اپنی ہر چاہت سے بےنیاز کر ہی دیا جاتا ہے۔۔!
مگر یہ بے نیازی بہت بے بسی، بہت عاجزی بہت تلاطم، بہت صبر کے بعد مَن کے سمندر کا حصہ بنتی ہے۔
قربانی ہی تو قرب عطا کرتی ہے، ظرف عطا ہے اور سب کو بقدرِ ظرف آزمایا جاتا ہے اور سبکو بقدرِ ظرف عطا کیا جاتا ہے۔۔۔۔
قربانی کی توفیق بھی عطا ہے۔ اللہ کے کارخانہء قدرت میں سب عطا ہے۔۔۔ ہر آزمائش، ہجر وصل، سزا جزا، سب عطاہے الحمد للہ!
اللہ پاک ہمیں اپنی چاہ میں راضی برضا رہنے کی توفیق عطا فرما دے، اللہ ہمیں معاف کر دے، اللہ ہم سے دو جہاں میں راضی ہو جاۓ۔۔۔
آمین یا رَبُّ العَالَمِیـــن!
ﯾﮧ ﻣِﺮﯼ ﺍَﻧﺎ ﮐﯽ ﺷِﮑﺴﺖ ﮨﮯ، ﻧﮧ ﺩﻭﺍ ﮐﺮﻭ ﻧﮧ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮﻭ
ﯾﮧ ﻣِﺮﯼ ﺍَﻧﺎ ﮐﯽ ﺷِﮑﺴﺖ ﮨﮯ، ﻧﮧ ﺩﻭﺍ ﮐﺮﻭ
ﻧﮧ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮﻭ
ﺟﻮ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺑﺲ ﯾﮧ ﮐﺮﻡ ﮐﺮﻭ، ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻝ ﭘﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺗﺮﮐﺶِ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ، ﺍﺑﮭﯽ ﺍُﺱ
ﻣﯿﮟ ﺗِﯿﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺁ ﻟﮕﮯ ﻣِﺮﮮ ﺯﺧﻢِ ﺩﻝ
ﭘﮧ ﻧﮧ ﯾُﻮﮞ ﮨﻨﺴﻮ
ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﮦ ﮐﻦ ﮨﻮﮞ، ﻧﮧ ﻗﯿﺲ ﮨﻮﮞ،
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﺮﮎِ ﻋِﺸﻖ ﻗﺒﻮُﻝ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ
ﯾﻘﯿﻦِ ﻭﻓﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺩِﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﻮُﮎ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ
ﻋﮩْﺪ ﻧﺎﻣﮯ ﻓﻀُﻮﻝ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﻣِﺮﮮ ﺧﻄﻮُﻁ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺎﮌ ﺩﻭ، ﯾﮧ
ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺧﻂ ﮨﯿﮟ ﺳﻤﯿﭧ ﻟﻮ
ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮔﻠﮧ ﺑﮭﯽ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍِﮎ ﺍﺻﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺧﻔﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﺻﺪﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ، ﻣﺠﮭﮯ
ﺧﺎﻝ ﻭ ﺧﺪ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍِﺱ ﻓﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ؟ ﯾﮧ ﻧﻘﺎﺏ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍُﺗﺎﺭ ﺩﻭ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓُﻘﺮ ﭘﮧ ﻧﺎﺯ ﮨﮯ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺱ
ﮐﺮَﻡ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮔﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨُﻮﮞ ﻓﻘِﯿﺮ ﮨُﻮﮞ، ﯾﮧ ﮐﺮَﻡ
ﮔﺪﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭧ ﺩﻭ
ﯾﮧ ﻓﻘﻂ ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ، ﻣِﺮﺍ ﻣُﺨﺘﺼﺮ
ﺳﺎ ﺟَﻮﺍﺏ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﮔِﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺧﻠﻮُﺹ ﮨﮯ، ﻣِﺮﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ
ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﻧﮧ ﻟﻮ
ﯾﮧ ﺍﺩﮬﻮُﺭﮮ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺑﮭﯽ
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ !
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ،
ﺍﺑﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﮯ ﭼﻠﮯ ﭼﻠﻮ
ﻧﮧ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮﻭ
ﺟﻮ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺑﺲ ﯾﮧ ﮐﺮﻡ ﮐﺮﻭ، ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻝ ﭘﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺗﺮﮐﺶِ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ، ﺍﺑﮭﯽ ﺍُﺱ
ﻣﯿﮟ ﺗِﯿﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺁ ﻟﮕﮯ ﻣِﺮﮮ ﺯﺧﻢِ ﺩﻝ
ﭘﮧ ﻧﮧ ﯾُﻮﮞ ﮨﻨﺴﻮ
ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﮦ ﮐﻦ ﮨﻮﮞ، ﻧﮧ ﻗﯿﺲ ﮨﻮﮞ،
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﺮﮎِ ﻋِﺸﻖ ﻗﺒﻮُﻝ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺗﻤﮭﯿﮟ
ﯾﻘﯿﻦِ ﻭﻓﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺩِﻝ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﻮُﮎ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ
ﻋﮩْﺪ ﻧﺎﻣﮯ ﻓﻀُﻮﻝ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﻣِﺮﮮ ﺧﻄﻮُﻁ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺎﮌ ﺩﻭ، ﯾﮧ
ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺧﻂ ﮨﯿﮟ ﺳﻤﯿﭧ ﻟﻮ
ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮔﻠﮧ ﺑﮭﯽ
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍِﮎ ﺍﺻﻮﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺧﻔﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﺻﺪﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ، ﻣﺠﮭﮯ
ﺧﺎﻝ ﻭ ﺧﺪ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍِﺱ ﻓﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ؟ ﯾﮧ ﻧﻘﺎﺏ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍُﺗﺎﺭ ﺩﻭ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓُﻘﺮ ﭘﮧ ﻧﺎﺯ ﮨﮯ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺱ
ﮐﺮَﻡ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮔﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨُﻮﮞ ﻓﻘِﯿﺮ ﮨُﻮﮞ، ﯾﮧ ﮐﺮَﻡ
ﮔﺪﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭧ ﺩﻭ
ﯾﮧ ﻓﻘﻂ ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ، ﻣِﺮﺍ ﻣُﺨﺘﺼﺮ
ﺳﺎ ﺟَﻮﺍﺏ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﮔِﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺧﻠﻮُﺹ ﮨﮯ، ﻣِﺮﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ
ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﻧﮧ ﻟﻮ
ﯾﮧ ﺍﺩﮬﻮُﺭﮮ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺑﮭﯽ
ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ !
ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ،
ﺍﺑﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﮯ ﭼﻠﮯ ﭼﻠﻮ
قہقے
بعض لوگ اتنے بہادر ہوتے ہیں کہ اگر ان کی زندگی میں غم بڑھ جائیں تو ان کے قہقہوں میں شدت آ جاتی ہے....
Monday, 14 October 2013
رابطے
رابطے
ہاں ابھی سوچ لے
فیصلوں کا سفر
لفظ کی نرم چھائوں میں کٹتا نہیں
اور سُن
فیصلوں کی ندامت سے تکلیف دہ
کوئی بھی دُکھ نہیں
جِتنے خدشے میرے ساتھ چلنے میں ہیں
اِس دوراہے پہ رُک اور اُنھیں اپنی آنکھوں میں ترتیب دے
جان لے
وقت کے دشتِ بے برگ میں واپسی کے لئے کوئی رستہ نہیں
(منظروں کا نیا پَن پُرانی رُتوں کے لیے موت ہے)
جو ہوا میرے جُملے کے آغاز میں
تیرے بالوں کو چھوتے ہوئے چَل رہی تھی اُسی وقت سے
مَر چُکی ہے کہ اب
اُس کا ہونا نہ ہونا تیرے واسطے ایک ہے
اور تُجھ کو پتا ہے؟
کِسی چیز کی زندگی
اُس تعلق سے ہے جو کِسی ذات کے رابطے سے بنے
ہاں یہی وقت ہے
رابطے اور تعلق کے معنی سمجھ
جِتنے خڈشے میرے ساتھ چلنے میں ہیں
اِس دوراہے پہ رُک
اور اُنھیں اپنی آنکھوں میں ترتیب دے
کہ ابھی تیرے ہاتھوں کا ہر رابطہ
تیرے ہاتھوں میں ہے۔۔۔۔
عشق
یونہی نہیں یہ کائنات ،جلوت دلنشیں بنی
عشق سے ہر فلک بنا ،عشق سے ہر زمیں بنی
عشق تمام تر انا ،عشق میں عاجزی کہاں
عشق وہ ذات ہے کہ جو ،راحت - عاشقیں بنی
ہجر میں جھوٹ بول کر ،عشق میں رد ہوا ہے تو
نام تو ہو گیا ترا ،بات تری نہیں بنی
عشق کی خاک کے بغیر ،عشق کے چاک کے بغیر
شکل بنا رہے تھے تم ؟؟ بولو منافقیں بنی ؟
حاضر بارگاہ عشق دھیان میں صرف یہ رہے
جس کی نہ بن سکی یہاں ،اس کی نہ پھر کہیں بنی
عشق سے ہر فلک بنا ،عشق سے ہر زمیں بنی
عشق تمام تر انا ،عشق میں عاجزی کہاں
عشق وہ ذات ہے کہ جو ،راحت - عاشقیں بنی
ہجر میں جھوٹ بول کر ،عشق میں رد ہوا ہے تو
نام تو ہو گیا ترا ،بات تری نہیں بنی
عشق کی خاک کے بغیر ،عشق کے چاک کے بغیر
شکل بنا رہے تھے تم ؟؟ بولو منافقیں بنی ؟
حاضر بارگاہ عشق دھیان میں صرف یہ رہے
جس کی نہ بن سکی یہاں ،اس کی نہ پھر کہیں بنی
Wednesday, 25 September 2013
تعلق کی آخری ساعتیں
تیرے میرے تعلّق کی اب
آخری ساعتیں ہیں
چلو اب حسابِ زیاں کر ہی لیں
جیت کس کی ہوئی
ہار کس کا مقدّر بنی
آرزوؤں کی بنجر زمیں پر کبھی
اک جو اُمید سی رینگتی رہتی تھی
(تیری چاہت کی، تیری وفاؤں کی امّید)
وہ ٹوٹنے کی گھڑی آ گئی ہے
مگر دل ابھی تک تری چاہ میں
خواب آلود پھرتا ہے
(ٹوٹتا ہے، بکھرتا ہے، جڑتا نہیں)
اپنے اشکوں کی
سرگوشیاں سنتی رہتی ہوں
پر خود کو اک چُپ کی چادر سے
ڈھانپے ہوئے بیٹھی ہوں
جانتی ہوں مرے خواب کا کوئی چہرہ نہیں
یہ زوالِ وفا کا ہی سب قصّہ ہے
(آرزو کا جو حصّہ ہے )
تُو جانتا ہے
نہ میں جانتی ہوں
رفاقت کے اس کھیل میں
جیت کس کی ہوئی
ہار کس کی ہوئی
پر مجھے تیری سنگت میں گزری ہوئی ساری
نا مہرباں ساعتوں کی قسم
میری سانسوں کی تاریں
تری دھڑکنوں سے ابھی تک جڑی ہوئی ہیں
میرے احساس کی اُنگلیاں
تیری دیوارِ جاں پر ابھی
تک جمی ہوئ ہین....
آخری ساعتیں ہیں
چلو اب حسابِ زیاں کر ہی لیں
جیت کس کی ہوئی
ہار کس کا مقدّر بنی
آرزوؤں کی بنجر زمیں پر کبھی
اک جو اُمید سی رینگتی رہتی تھی
(تیری چاہت کی، تیری وفاؤں کی امّید)
وہ ٹوٹنے کی گھڑی آ گئی ہے
مگر دل ابھی تک تری چاہ میں
خواب آلود پھرتا ہے
(ٹوٹتا ہے، بکھرتا ہے، جڑتا نہیں)
اپنے اشکوں کی
سرگوشیاں سنتی رہتی ہوں
پر خود کو اک چُپ کی چادر سے
ڈھانپے ہوئے بیٹھی ہوں
جانتی ہوں مرے خواب کا کوئی چہرہ نہیں
یہ زوالِ وفا کا ہی سب قصّہ ہے
(آرزو کا جو حصّہ ہے )
تُو جانتا ہے
نہ میں جانتی ہوں
رفاقت کے اس کھیل میں
جیت کس کی ہوئی
ہار کس کی ہوئی
پر مجھے تیری سنگت میں گزری ہوئی ساری
نا مہرباں ساعتوں کی قسم
میری سانسوں کی تاریں
تری دھڑکنوں سے ابھی تک جڑی ہوئی ہیں
میرے احساس کی اُنگلیاں
تیری دیوارِ جاں پر ابھی
تک جمی ہوئ ہین....
Sunday, 25 August 2013
دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
وہ شخص جو پتھر تھا ٹوٹا تو بہت رویا
یہ دل کہ جدائی کے عنوان پہ برسوں سے
چپ تھا تو بہت چپ تھا رویا تو بہت رویا
آسان تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
اک حرف تسلی کا اک حرف محبت کا
خود اپنے لئے اس نے لکھا تو بہت رویا
پہلے بھی شکستوں پر کھائی تھی شکست اس نے
لیکن وہ تیرے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا
جو عہد نبھانے کی دی تھی دعا اس نے
کل شام مجھے تنہا دیکھا تو بہت رویا
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے ، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارۂ زخمِ غمِ دیدۂ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ، ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺩﺭﯾﺎﺅﮞ ﺳﮯ،
ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺻﺤﺮﺍﺅﮞ ﺳﮯ، ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮﻭﮞ
ﮐﮯ ﻭﯾﺮﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﻭﯾﺮﺍﻧﮧ ﮔﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺰﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺍﺱ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﮨﻤﯿﮟ
ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ
ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻮ ﺁﺳﻮﺩﮔﯽﺀ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭ ﺟﺎﮦ
ﺳﮯ،
ﺁﻟﻮﺩﮔﯽﺀ ﮔﺮﺩ ﺳﺮ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ!
ﺟﻮ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮨﻮﺩﮦ ﮐﺸﺎﮐﺶ ﺳﮯ
ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﺪﻭﻡ
ﺧﻮﺩ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ،
ﺍﮮ ﮐﺎﮨﻦ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭ ﻭ ﻋﺎﻟﯽ ﮔﮩﺮ ﻭ ﭘﯿﺮ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺳﺠﮭﺎﺋﯽ ﻏﻢ ﺩﻟﮕﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﺴﺨﯿﺮ
ﭨﻮﭨﯽ ﺗﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺧﻮﻑ ﮐﯽ
ﺯﻧﺠﯿﺮ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ،
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﻣﺪﻓﻮﻥ ﮨﯿﮟ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﮯ
ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺍﺳﻤﺎﺭ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺍﺟﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺭﯾﺨﺘﮧ ﺍﻭﮨﺎﻡ ﮐﯽ
ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺷﯿﺮﺍﺯ ﮐﮯ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺗﻨﮏ ﺟﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻓﮑﺎﺭ
ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻧﮕﻮﮞ ﺳﺎﺭ ﮐﮯ ﺁﻻﻡ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ ﮐﮯ
ﻧﯿﭽﮯ!
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﻣﮕﺮ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ
ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﺮﻋﻮﺏ
ﻧﮯ ﺣﻮﺻﻠﮧﺀﺧﻮﺏ ﮨﮯ، ﻧﮯ ﮨﻤﺖ ﻧﺎ ﺧﻮﺏ
ﮔﺮ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ
ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺟﺎﺭﻭﺏ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺠﻮﺏ!
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮔﺮﺩﺵ ﺁﻻﺕ ﺳﮯ
ﺟﻮﯾﻨﺪﮦﺀ ﺗﻤﮑﯿﻦ
ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻗﺎﺿﯽ ﺣﺎﺟﺎﺕ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﺩﮨﺮ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ
ﮐﭽﮫ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻭﺍﺕ ﺳﮯ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﻣﯿﻦ
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﺎ ﮨﻮﺱ ﺟﻮﺭ ﮨﮯ ﺁﺋﯿﻦ
ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﻦ!
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﻭﺭﺩﮦﺀ ﺍﻧﻮﺍﺭ، ﻣﮕﺮ ﺍﻥ
ﮐﯽ ﺳﺤﺮ ﮔﻢ
ﺟﺲ ﺁﮒ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮐﺎ ﺧﻤﯿﺮ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﺮﺭ ﮔﻢ
ﮨﮯ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﮕﺮ ﺟﺰ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ
ﮔﻢ
ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺮﺗﺒﮧ
ﺩﯾﺪﮦﺀﺗﺮ ﮨﯿﭻ
ﺩﻝ ﮨﯿﭻ ﮨﮯ، ﺳﺮ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺳﺮ ﮨﯿﭻ
۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻋﺮﺽ ﮨﻨﺮ ﮨﯿﭻ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ
ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺮﮮ
ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ
ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺍ
ﺩﻭﺭ
ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ، ﻧﮯ ﻣﻮﺭ ﻭ ﻣﻠﺦ،
ﻧﮯ ﺍﺳﺪ ﻭ ﺛﻮﺭ
ﻧﮯ ﻟﺬّﺕ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ
ﮨﻮﺱ ﺟﻮﺭ
۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﻃﻮﺭ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺳﻮﮔﻨﺪ!
ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺳﺮ ﺑﺴﺘﮧ ﻭ
ﺭﻭﺑﻨﺪ
ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻮﯾﺎﺋﯽ ﺩﻭ
ﺷﯿﺰﮦﺀ ﻟﺐ ﺧﻨﺪ
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺴﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﺎ،
ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﺎﺭ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ
ﻋﺸّﺎﻕ ﮐﮯ ﻟﺐ ﮨﺎﺋﮯ ﺍﺯﻝ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﯽ
ﭘﯿﻮﺳﺘﮕﯽﺀ ﺷﻮﻕ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﺪ
(ﺍﮮ ﻟﻤﺤﮧ ﺧﻮﺭﺳﻨﺪ!)
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎﻣﻞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﮨﺮ ﺳﻌﺌﯽ ﺟﮕﺮ ﺩﻭﺯ ﮐﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮯ ﻧﺌﮯ
ﺧﻮﺍﺏ
ﺁﺩﻡ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺟﺸﻦ ﭘﮧ ﻟﮩﺮﺍﺗﮯ
ﺟﻼﺟﻞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺍﺱ ﺧﺎﮎ ﮐﯽ ﺳﻄﻮﺕ ﮐﯽ ﻣﻨﺎﺯﻝ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ
ﺧﻮﺍﺏ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ، ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺩﺭﯾﺎﺅﮞ ﺳﮯ،
ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺻﺤﺮﺍﺅﮞ ﺳﮯ، ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮﻭﮞ
ﮐﮯ ﻭﯾﺮﺍﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﻭﯾﺮﺍﻧﮧ ﮔﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺰﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺍﺱ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﮨﻤﯿﮟ
ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ
ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻮ ﺁﺳﻮﺩﮔﯽﺀ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭ ﺟﺎﮦ
ﺳﮯ،
ﺁﻟﻮﺩﮔﯽﺀ ﮔﺮﺩ ﺳﺮ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ!
ﺟﻮ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮨﻮﺩﮦ ﮐﺸﺎﮐﺶ ﺳﮯ
ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﺪﻭﻡ
ﺧﻮﺩ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ،
ﺍﮮ ﮐﺎﮨﻦ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭ ﻭ ﻋﺎﻟﯽ ﮔﮩﺮ ﻭ ﭘﯿﺮ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺳﺠﮭﺎﺋﯽ ﻏﻢ ﺩﻟﮕﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﺴﺨﯿﺮ
ﭨﻮﭨﯽ ﺗﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺧﻮﻑ ﮐﯽ
ﺯﻧﺠﯿﺮ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ،
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﻣﺪﻓﻮﻥ ﮨﯿﮟ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﮯ
ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺍﺳﻤﺎﺭ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺍﺟﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺭﯾﺨﺘﮧ ﺍﻭﮨﺎﻡ ﮐﯽ
ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺷﯿﺮﺍﺯ ﮐﮯ ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺗﻨﮏ ﺟﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻓﮑﺎﺭ
ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ
ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻧﮕﻮﮞ ﺳﺎﺭ ﮐﮯ ﺁﻻﻡ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ ﮐﮯ
ﻧﯿﭽﮯ!
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﻣﮕﺮ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ
ﻧﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﺮﻋﻮﺏ
ﻧﮯ ﺣﻮﺻﻠﮧﺀﺧﻮﺏ ﮨﮯ، ﻧﮯ ﮨﻤﺖ ﻧﺎ ﺧﻮﺏ
ﮔﺮ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ
ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺟﺎﺭﻭﺏ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺠﻮﺏ!
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮔﺮﺩﺵ ﺁﻻﺕ ﺳﮯ
ﺟﻮﯾﻨﺪﮦﺀ ﺗﻤﮑﯿﻦ
ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻗﺎﺿﯽ ﺣﺎﺟﺎﺕ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﺩﮨﺮ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ
ﮐﭽﮫ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻭﺍﺕ ﺳﮯ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﻣﯿﻦ
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﺎ ﮨﻮﺱ ﺟﻮﺭ ﮨﮯ ﺁﺋﯿﻦ
ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﻦ!
ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﻭﺭﺩﮦﺀ ﺍﻧﻮﺍﺭ، ﻣﮕﺮ ﺍﻥ
ﮐﯽ ﺳﺤﺮ ﮔﻢ
ﺟﺲ ﺁﮒ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮐﺎ ﺧﻤﯿﺮ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﺮﺭ ﮔﻢ
ﮨﮯ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﮕﺮ ﺟﺰ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ
ﮔﻢ
ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺮﺗﺒﮧ
ﺩﯾﺪﮦﺀﺗﺮ ﮨﯿﭻ
ﺩﻝ ﮨﯿﭻ ﮨﮯ، ﺳﺮ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺳﺮ ﮨﯿﭻ
۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻋﺮﺽ ﮨﻨﺮ ﮨﯿﭻ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ
ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺮﮮ
ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ
ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺍ
ﺩﻭﺭ
ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ، ﻧﮯ ﻣﻮﺭ ﻭ ﻣﻠﺦ،
ﻧﮯ ﺍﺳﺪ ﻭ ﺛﻮﺭ
ﻧﮯ ﻟﺬّﺕ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ
ﮨﻮﺱ ﺟﻮﺭ
۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﻃﻮﺭ!
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺳﻮﮔﻨﺪ!
ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺳﺮ ﺑﺴﺘﮧ ﻭ
ﺭﻭﺑﻨﺪ
ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻮﯾﺎﺋﯽ ﺩﻭ
ﺷﯿﺰﮦﺀ ﻟﺐ ﺧﻨﺪ
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺴﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﺎ،
ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﺎﺭ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ
ﻋﺸّﺎﻕ ﮐﮯ ﻟﺐ ﮨﺎﺋﮯ ﺍﺯﻝ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﯽ
ﭘﯿﻮﺳﺘﮕﯽﺀ ﺷﻮﻕ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﺪ
(ﺍﮮ ﻟﻤﺤﮧ ﺧﻮﺭﺳﻨﺪ!)
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ، ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ
ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎﻣﻞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﮨﺮ ﺳﻌﺌﯽ ﺟﮕﺮ ﺩﻭﺯ ﮐﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮯ ﻧﺌﮯ
ﺧﻮﺍﺏ
ﺁﺩﻡ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺟﺸﻦ ﭘﮧ ﻟﮩﺮﺍﺗﮯ
ﺟﻼﺟﻞ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺍﺱ ﺧﺎﮎ ﮐﯽ ﺳﻄﻮﺕ ﮐﯽ ﻣﻨﺎﺯﻝ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ
ﺧﻮﺍﺏ
ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺍﺯﻝ ﮔﯿﺮ ﻭ ﺍﺑﺪ ﺗﺎﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ!
ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎ ﺟﻠﻮﮦ
ﻋﺠﺐ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺪﺍ ﮨﻮﺍ، ﺗﻮ
ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﭼﮭﻦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺕ ﺑﻌﺪ
ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ
ﻟﻮﭦ ﺁﺋﯽ- ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ، ﺗﻮ
ﭘﮭﺮ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ؟ ﺷﺎﯾﺪ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ
ﮐﯽ ﺗﻤّﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ - ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎ
ﭼﮩﺮﮦ ﮨﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ
ﭼﮩﺮﮦ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ !۔۔
ﻣﺤﺒﻮﺏ، ﻣﺤﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺭﻧﺪ
ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ - ﻣﺤﺒّﺖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﺎ ﺳﻮﺍﮮ
ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ - ﻭﮦ ﮐﺴﯽ
ﺷﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ -
ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﻭ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ
ﺟﻠﻮﮦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ، ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎ ﺟﻠﻮﮦ !!..
ﻭﺍﺻﻒ ﻋﻠﯽ ﻭﺍﺻﻒ ﺍﺯ ﻗﻄﺮﮦ ﻗﻄﺮﮦ ﻗﻠﺰﻡ
ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﭼﮭﻦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺕ ﺑﻌﺪ
ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ
ﻟﻮﭦ ﺁﺋﯽ- ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ، ﺗﻮ
ﭘﮭﺮ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ؟ ﺷﺎﯾﺪ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ
ﮐﯽ ﺗﻤّﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ - ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎ
ﭼﮩﺮﮦ ﮨﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ
ﭼﮩﺮﮦ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ !۔۔
ﻣﺤﺒﻮﺏ، ﻣﺤﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺭﻧﺪ
ﺩﮐﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ - ﻣﺤﺒّﺖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﺎ ﺳﻮﺍﮮ
ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ - ﻭﮦ ﮐﺴﯽ
ﺷﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ -
ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﻭ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ
ﺟﻠﻮﮦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ، ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﺎ ﺟﻠﻮﮦ !!..
ﻭﺍﺻﻒ ﻋﻠﯽ ﻭﺍﺻﻒ ﺍﺯ ﻗﻄﺮﮦ ﻗﻄﺮﮦ ﻗﻠﺰﻡ
Monday, 1 July 2013
Subscribe to:
Posts (Atom)