تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے ہو
کونسے دکھ کی بات کریں
ذرا یہ تو بتاؤ
موسموں ، سرد ہواؤں کی مسیحائی کا دکھ ،
راہ کی دھول میں بکھری ہوئی بینائی کا دکھ
سنگ کے شہر میں خود دکھ سے شناسائی کا دکھ
یا کسی بھیگی برسات میں تنہائی کا دکھ
کونسے دکھ کی بات کریں
کہ دل کا دریا اتنی طغیانی کی زَد پر ہے
کہ کچھ یاد نہیں
کب ہمیں بھول گیا کونسے ہر جائی کا دکھ
تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے ہو !!!
No comments:
Post a Comment