Popular Posts
-
ﺑﺮﻑ ﻭ ﺑﺎﺭﺍﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﺴﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺴﮑﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺩﻭ، ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻤﺒﻞ ﺍُﺳﮯ ﺍ...
-
تو کوزہ گر - عشق ہے اور میں ہوں گل - عشق .. اب جیسا تجھے اچھا لگے ویسا بنا تو ..!!
-
سر_منزل بھی تو ہم بے اختیار ہی ٹھہرے بہت سنبھل کے چلے پھر بھی بے اعتبار ٹھہرے خود اپنے سے اپنی بات کہہ ہنس دینا رو دینا ہم...
-
ﺍﺩﺍﺱ ﻟﻤﺤﻮ!!!!! ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮑﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﮍﯼ ﮨﮯ۔۔؟ ﮨﮯ ﺭﯾﺖ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﺧﺎﺭ ﺩﻝ ...
-
ﺧﻮﺍﺏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﺳﺎ ﺑﺪﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﯽ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﺴﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﻮﺭ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ...
-
تم سے ہم کیا کہیں تم کو معلوم کیا ہم نے کاٹی ہے کیسے شب زندگی ہم نے کیسے اٹھایا ہے بار_وفا
-
کبھی بادل وار برس سائیں میرا سینہ گیا ترس سائیں میں توبہ تائب دیوانہ آباد کروں کیا ویرانہ میری بس سائیں ، میری بس سائیں کبھی ب...
-
ﺳﺎﺋﯿﺎﮞ ﺳﻮﮨﻨﯿﺎ ! ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺭﺑﺎﺭ - ﮔﻠﺒﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﺒﺰ ﺗﺮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺳﯿﺪﺍ ! ﻟﻮﮒ ﮈﺭﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ! ﻟﻮﮒ ﮈﺭﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻮﻣﻨﯿﻦ -...
Friday, 31 May 2013
Tuesday, 28 May 2013
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ، مرے دل سے بوجھ اتار دو
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ، مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خدوخال
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے رنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذا ب نے
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خدوخال
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے رنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذا ب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا ، مری دھڑکنوں کو قرار دو
تمہیں صبح کیسی لگی کہو ، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگی تو یہیں رہو، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ وہ فکر دیر سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گذار دو
کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اونٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو
تمہیں صبح کیسی لگی کہو ، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگی تو یہیں رہو، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ وہ فکر دیر سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گذار دو
کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اونٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو
کبھی بادل وار برس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
میرا سینہ گیا ترس سائیں
میں توبہ تائب دیوانہ
آباد کروں کیا ویرانہ
میری بس سائیں ، میری بس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
اس عشق نے عجب اسیر کیا
خو دل سینے میں تیر کیا
کیا چلے گی پیش و پس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
ہم بھی کچھ کھل کر سانسیں لیں
اشکوں سے دھل کر سانسیں لیں
کچھ گھول فضا میں رس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
میرا سینہ گیا ترس سائیں
میں توبہ تائب دیوانہ
آباد کروں کیا ویرانہ
میری بس سائیں ، میری بس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
اس عشق نے عجب اسیر کیا
خو دل سینے میں تیر کیا
کیا چلے گی پیش و پس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
ہم بھی کچھ کھل کر سانسیں لیں
اشکوں سے دھل کر سانسیں لیں
کچھ گھول فضا میں رس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
Monday, 27 May 2013
ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ہم گردِ سفر، ہم نقشِ قدم۔۔
ہم سوزِطلب، ہم طرزِ فغان---
ہم رنج چمن، ہم فصل خزاں ۔۔۔
ہم حیرت و حسرت و یاس و الم---
ہم دشت جنوں کے سودائی
یہ دشتِ جنوں، یہ پاگل پن ۔۔
یہ پیچھا کرتی رسوائی---
یہ رنج و الم، یہ حزن و ملال۔۔۔
یہ نالہء شب، یہ سوزِ کمال---
دل میں کہیں بے نام چبھن۔۔
اور حدِ نظر تک تنہائی ---
ہم دشتِ جنوں کے سودائی---
اب جان ہماری چُھوٹے بھی۔۔
یہ دشتِ جنوں ہی تھک جائے --
جو روح و بدن کا رشتہ تھا۔۔
کئی سال ہوئے وہ ٹوٹ گیا --
اب دل کا دھڑکنا رک جائے۔۔
اب سانس کی ڈوری ٹوٹے بھی --
ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔
ہم گردِ سفر، ہم نقشِ قدم۔۔
ہم سوزِطلب، ہم طرزِ فغان---
ہم رنج چمن، ہم فصل خزاں ۔۔۔
ہم حیرت و حسرت و یاس و الم---
ہم دشت جنوں کے سودائی
یہ دشتِ جنوں، یہ پاگل پن ۔۔
یہ پیچھا کرتی رسوائی---
یہ رنج و الم، یہ حزن و ملال۔۔۔
یہ نالہء شب، یہ سوزِ کمال---
دل میں کہیں بے نام چبھن۔۔
اور حدِ نظر تک تنہائی ---
ہم دشتِ جنوں کے سودائی---
اب جان ہماری چُھوٹے بھی۔۔
یہ دشتِ جنوں ہی تھک جائے --
جو روح و بدن کا رشتہ تھا۔۔
کئی سال ہوئے وہ ٹوٹ گیا --
اب دل کا دھڑکنا رک جائے۔۔
اب سانس کی ڈوری ٹوٹے بھی --
ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔
Monday, 6 May 2013
Sunday, 5 May 2013
میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی
میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی
وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی
کبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ
میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی
بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہی
ہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی
وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی
کبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ
میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی
بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہی
ہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی
محبت ایک صحرا ہے
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور صحرا میں کبھی بارش نہیں ہوتی
اور اگر باالفرض ہو بھی تو
فقط اک پل کو ہوتی ہے
اور اس کے بعد صدیاں خشک سالی میں گزرتی ہیں
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور اس میں وصل کی بارش کو صدیاں بیت جاتی ہیں
مگر پھر بھی نہیں ہوتی
اور اگر باالفرض ہو بھی تو
پھر اس کے بعد صدیوں کی جدائی مار دیتی ہے
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
اور صحرا کے سرابوں میں بھٹک جانے کا خدشہ سب کو رہتا ہے
کبھی پیاسے مسافر جب سرابوں میں بھٹک جائیں
انھیں رستہ نہیں ملتا
اسے کہنا
محبت ایک صحرا ہے
وفاؤں کے سرابوں سے اٹا صحرا
محبت کے مسافر گر
وفا کے ان سرابوں میں بھٹک جائیں
تو پھر وہ زندگی بھر ان سرابوں میں ہی رہتے ہیں
کبھی واپس نہیں آتے...
Saturday, 4 May 2013
________ پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا ____________
جب درد پرانے ہو بیٹھے
جب`یاد کا جگنو راکھ ہوا
جب آنکھ میں اآنسو برف ہوے
جب زخم سے دل مانوس ہوا
تب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا !
جب کرب کی لمبی راہوں میں
احساس کے بال سفید ہوے
جب آنکھیں 'بے سیلاب ہوئیں
جب چاند چڑھا بے دردی کا
جب ریت پہ لکھی یادوں کو
بے مہر ہوا نے چھین لیا
جب 'یاد رتیں' بے داد ہوئیں
تب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں!!
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا
جب آنکھیں کچھ آباد ہوئیں
جب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
احساس کا بچپن جاگ پڑا
پھرجذبے بے تقویم ہوے!
پھر وقت نے کچھ انگڑائی لی
پھر سوچ کی قبر سےدھول اڑی
پھرپیاس کا برزخ بھول گیا
ایک ہجر سےکیا آزاد ہوے؟
سو ہجر نے ایجاد ہوے!
پھر اشک میں دریا قید ہوا
پھر دھڑکن میں بھونچال پڑے
پھر عشق کاجوگی گلیوں میں..
تقدیر کے سانپ اٹھا لایا
پھر ہوش کا جنگل سبز ہوا
پھر `شوق درینہ جاگ اٹھا.
پھر زلف کے تیور شام بنے
اس شام میں پھرمہتاب چڑھا
پھر ہونٹ کی لرزش , گیت بنی
پھر شعر، شعور کا ورد ہوا
پھر خون سے لکھے جذبے بھی نیلام ہوۓ
پھر درد "زلیخا "بن بیٹھا
پھر قرب کا کرب جوان ہوا
پھر مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
کچھ ہجر کی نبضیں تیز ہوئیں
جب قید کو تازہ عمر ملی
اس قیدی عمر کے بختوں نے.
اک شامِ سہور سے پوچھ لیا
قید ہی رہنا تھا ...تو ہمیں
وہ پچھلا ہجر ہی کافی تھا
کیوں پچھلے جال کو چھوڑا تھا
کس عهد پہ پنجرہ توڑا تھا؟
جب جال تیری کمزوری تھے ..
صیّاد کو کیوں بدنام کیا
اب سوچ رہا ہوں مدّت سے
کیوں مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں؟
کیوں دل کو دھڑکنا یاد آیا...
Subscribe to:
Posts (Atom)